Hazrat Data Ganj Bakhsh Ali Hajveri R.A
Hazrat Syed Hafiz Haji Abul Hasan Bin Usman Bin Ali Al-Jalabi Al-Hujwiri
Madh’hab: Hanbali
Born: Circa 400 AH / 1009 AD Hujwir, Ghazni, Ghaznavid Empire (Modern-day Afghanistan)
Passed away: Circa 465 AH / 1072 AD Lahore, Pakistan
Resting place: Lahore, Pakistan, Map of Burial Place
حضرت سید حافظ حاجی ابوالحسن بن عثمان بن علی الجلبی الحجویری رحمۃ اللہ علیہ
مذھب: حنبلی۔
پیدائش: تقریباً 400 ہجری / 1009 عیسوی ہجویر، غزنی، غزنوید سلطنت (جدید دور کا افغانستان)
وفات: 465ھ / 1072ء لاہور، پاکستان
آرام گاہ: لاہور، پاکستان، تدفین کی جگہ کا نقشہ
Hazrat Syed Hafiz Haji Abu’l Hasan Bin Usman Bin Ali Al-Jalabi Al-Hujwiri (ra) (also spelled Hujweri, Hajweri, Hajveri, Hajvery) also known as Data Ganj Bakhsh (the master who bestows treasures) or Data Sahib was a great Persian Sufi scholar, writer and poet who lived during the 5th Century AH (11th Century AD). He significantly contributed to the spreading of Islam in South Asia.
حضرت سید حافظ حاجی ابوالحسن بن عثمان بن علی الجلبی الحجویری (رح) (ہجویری، ہجویری، ہجویری، ہجویری بھی کہتے ہیں) جسے داتا گنج بخش (خزانے دینے والا آقا) یا داتا صاحب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عظیم فارسی صوفی اسکالر، ادیب اور شاعر جو 5ویں صدی ہجری (11ویں صدی عیسوی) کے دوران رہے۔ انہوں نے جنوبی ایشیا میں اسلام کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
FAMILY & LINEAGE
Hazrat Ali Hujwiri (ra) was both a Hasani and Husseini Syed.
He was blessed with direct lineage to the Holy Prophet ﷺ through his father who was a direct descendant of Hazrat Imam Hasan , son of Hazrat Ali . His silsila-e-nasab (family lineage) is as follows:
-
Hazrat Ali Hujwiri (ra), son of
-
Hazrat Mohammad Usman (ra), son of
-
Hazrat Abu’l Hasan Ali (ra), son of
-
Hazrat Abdur Rahman (ra), son of
-
Hazrat Shah Shuja (ra), son of
-
Hazrat Abu’l Hasan Ali (ra), son of
-
Hazrat Hasan Asghar (ra), son of
-
Hazrat Zaid (ra), son of
-
Hazrat Imam Hasan , son of
-
Hazrat Ali .
حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ حسنی اور حسینی سید تھے۔
آپ کو اپنے والد کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نسب نصیب ہوا جو حضرت علی کے بیٹے حضرت امام حسن کی براہ راست اولاد تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے بیٹے
حضرت محمد عثمان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے
حضرت ابوالحسن علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے
حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے بیٹے
حضرت شاہ شجاع رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند
حضرت ابوالحسن علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے
حضرت حسن اصغر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے
حضرت زید رضی اللہ عنہ کے بیٹے
حضرت امام حسن علیہ السلام کے فرزند
حضرت علی
Hazrat Ali Hujwiri (ra) was the ninth descendant of Hazrat Ali Ra.gif. After the tragedy of Karbala, many of the descendants of Hazrat Ali Ra.gif dispersed to foreign lands and among them were the forefathers of Hazrat Ali Hujveri who migrated to the Ghaznavid Empire, which is now modern-day Afghanistan.
حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نویں اولاد تھے۔ کربلا کے سانحے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے بہت سے غیر ممالک میں منتقل ہو گئے اور ان میں حضرت علی ہجویری کے آباؤ اجداد بھی شامل تھے جنہوں نے غزنویوں کی سلطنت کی طرف ہجرت کی جو کہ آج جدید افغانستان ہے۔
Hazrat Ali Hujwiri (ra) was also blessed with direct lineage to the Holy Prophet ﷺ through his mother who was a descendant of Hazrat Imam Hussein . His mother was greatly devoted to religious worship and was committed to bettering the welfare of the poor and the suffering.
حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی والدہ کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نسب نصیب ہوا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھیں۔ ان کی والدہ مذہبی عبادات میں بہت زیادہ لگن رکھتی تھیں اور غریبوں اور مصائب کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم تھیں۔
His maternal uncle was highly respected and had the title of “Tajul Auliya”. Adjacent to the mausoleum of Hazrat Tajul Auliya lays the mausoleum belonging to the mother of Hazrat Ali Hujwiri (ra).
ان کے ماموں کی بہت عزت تھی اور انہیں “تاج الاولیاء” کا خطاب حاصل تھا۔ حضرت تاج الاولیاء کے مزار سے ملحق حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ کی والدہ کا مزار ہے۔
Although the family lived in fairly affluent circumstances, they were held in high esteem for their piety and religious devotion.
اگرچہ یہ خاندان کافی خوشحال حالات میں رہتا تھا، لیکن ان کی تقویٰ اور مذہبی عقیدت کی وجہ سے ان کی عزت کی جاتی تھی۔
BIRTH
Hazrat Ali Hujwiri (ra) was born in the city of Ghazni during the reign of Mahmud of Ghazni where his family had settled. He was known as Ali Al-Jalabi Al-Hujwiri (ra), as he had lived in Jalab and Hujwir, two different quarters (Mohallas) within the city of Ghazni.
The exact date of Hazrat Ali Hujwiri’s (ra) birth is not known, with estimates ranging from 400 AH to 406AH. Little is known of his early life or his education.
حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ غزنی کے شہر محمود کے دور میں پیدا ہوئے جہاں ان کا خاندان آباد تھا۔ وہ علی الجلبی الحجویری (رح) کے نام سے مشہور تھے، کیونکہ وہ غزنی شہر کے اندر دو مختلف محلوں جلب اور ہجویر میں مقیم تھے۔
حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ کی پیدائش کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہے، اندازے کے مطابق 400 ہجری سے 406 ہجری تک ہے۔ اس کی ابتدائی زندگی یا اس کی تعلیم کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔
TRAVELS
After having completed his studies, he travelled extensively in order to acquire knowledge from well-known scholars as well as to pay homage to saints. He is reported to have travelled for forty years, during which he always offered his Friday prayers in congregation.
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے معروف علماء سے علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اولیاء اللہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے وسیع سفر کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے چالیس سال کا سفر کیا، اس دوران وہ ہمیشہ نماز جمعہ باجماعت ادا کرتے تھے۔
He travelled to Syria, Iraq, Persia, Kohistan, Azerbaijan, Tabaristan, Kerman, Khorasan, Transoxiana amongst other places and met several prominent Sufis of the time. In Khorasan alone he is reported to have met 300 Sufis. He relates in Kashf-ul-Mahjoob:
آپ نے شام، عراق، فارس، کوہستان، آذربائیجان، طبرستان، کرمان، خراسان، ٹرانسوکسیانا سمیت دیگر مقامات کا سفر کیا اور اس وقت کے کئی ممتاز صوفیاء سے ملاقات کی۔ صرف خراسان میں اس کی 300 صوفیوں سے ملاقات کی اطلاع ہے۔ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
After the acquisition of academic knowledge in the fields of his search, he diverted his energy in quest of an accomplished spiritual teacher (Murshid-e-Kamil). He travelled great distances in search of a personality who could satiate his thirst for spirituality, rather than mere academic superficial knowledge. Hazrat Ali Hujwiri (ra) states in Kashf-ul-Mahjoob:
Other teachers and Sheikhs associated with Hazrat Ali Hujwiri (ra) are:
Abu’l-Abbas Ahmad bin Muhammad al-Ashqani (ra) (or al-Shaqani)
Hazrat Ali Hujwiri (ra) describes him:
حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ سے وابستہ دیگر اساتذہ اور شیخ یہ ہیں:
ابو العباس احمد بن محمد العشقانی رضی اللہ عنہ (یا الشقانی)
حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
He was an Imam in every branch of fundamental and derivative sciences of religion, and an accomplished venerable in all respects. He had met a great number of eminent Sufi Sheikhs. He is counted among the eminent Imams and Sheikhs. His doctrine was based on ‘annihilation’ (fana), and his expressions used to be highly complex. Some fools imitated him and have adopted his difficult writing style. When in its spiritual meaning it is not laudable to imitate then how it is right to imitate a mere expression! I was very intimate with him, and he had also a sincere affection for me. He was my teacher in some sciences. In my whole life I have never seen anyone, who held the Shariat in greater veneration than him. He kept himself detached from all created things.
وہ دین کے بنیادی اور مشتق علوم کی ہر شاخ میں امام اور ہر لحاظ سے قابل احترام تھے۔ وہ بہت سے نامور صوفی شیخوں سے ملے تھے۔ ان کا شمار نامور اماموں اور شیوخ میں ہوتا ہے۔ ان کا نظریہ فنا (فنا) پر مبنی تھا اور اس کے تاثرات انتہائی پیچیدہ ہوتے تھے۔ بعض احمقوں نے ان کی نقل کی اور ان کا مشکل طرز تحریر اپنایا۔ جب اس کے روحانی معنی میں تقلید قابل ستائش نہیں تو محض اظہار کی نقل کرنا کیسا ہے! میرا ان سے بہت گہرا تعلق تھا اور وہ بھی مجھ سے مخلصانہ لگاؤ رکھتے تھے۔ وہ کچھ علوم میں میرے استاد تھے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی کو نہیں دیکھا، جو شریعت کو ان سے زیادہ تعظیم میں رکھتا ہو۔ اس نے اپنے آپ کو تمام مخلوقات سے لاتعلق رکھا۔
Because of his complicated writings on account of the subtlety of his theological expositions only an Imam of profound insight could derive instruction from him. He always had a natural disgust of this world and the next, and would constantly exclaim, ‘I yearn for a non-existence that has no existence.’ And he used to say:
ان کی پیچیدہ تحریروں کی وجہ سے ان کے علمی بیانات کی باریک بینی کی وجہ سے صرف ایک گہری بصیرت والا امام ہی ان سے ہدایت حاصل کر سکتا ہے۔ اس کو دنیا اور آخرت سے ہمیشہ ایک فطری نفرت تھی اور وہ مسلسل چیخ کر کہتا تھا کہ میں ایک ایسے عدم کی خواہش رکھتا ہوں جس کا کوئی وجود ہی نہیں۔
‘Every man desires for impossible, and I too have desire for impossible, which I surely know will never be realized, namely that Allah should take me to a non-existence that will never return to existence, for stations and miracles are all veils and troubles and the man is becoming a suitor of his own veil. It is better to get annihilated in vision than being remain in constant state of veil. Almighty Allah is a Being that is not subject to none being, what loss would His kingdom suffer if I become a nonentity that shall never be endowed with existence?’
ہر انسان ناممکن کی تمنا کرتا ہے اور میں بھی ناممکن کی تمنا رکھتا ہوں جو کہ میں جانتا ہوں کہ کبھی پورا نہیں ہو گا، یعنی اللہ مجھے ایسے عدم کی طرف لے جائے جو کبھی دوبارہ وجود میں نہ آئے، کیونکہ مقام اور معجزے سب پردے ہیں۔ مصیبتیں اور انسان اپنے پردے کا خود کفیل بنتا جا رہا ہے۔ مسلسل پردے میں رہنے سے بہتر ہے کہ بصارت میں فنا ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی ہے جو کسی بھی ہستی کے تابع نہیں ہے، اگر میں ایک ایسی ہستی بن جاؤں جس کا کبھی وجود نہ ہو گا تو اس کی بادشاہت کو کیا نقصان پہنچے گا؟
This is a sound principle in a real annihilation.
یہ ایک حقیقی فنا میں ایک صحیح اصول ہے۔
Abu’l-Qasim bin Ali bin Abdullah al-Gurgani (ra)
He was unique and incomparable Qutb of his time. His initial state was excellent and strong. He performed long journeys with conscientious observance (of Shariat). All the aspirants of his time were whole heartedly inclined to him and seekers of the path of Truth had full faith on him. He possessed marvellous power of revealing the inwardly states of novices (kashf-i waq’a-i muridan). He was well learned in various branches of knowledge. All his disciples because of their knowledge and conduct are ornaments of the society in which they move. God willing, he will have an excellent successor, whose authority the whole body of Sufis will recognize, namely, Abu Ali al-Fadl b. Muhammad al-Farmadhi who has fully committed himself to the service of his Sheikh and has turned his back on all (worldly) things. Through the blessings of that (renunciation), Allah has made him the spiritual mouthpiece (zaban-i hal) of that venerable Sheikh.
وہ اپنے دور کے منفرد اور بے مثال قطب تھے۔ اس کی ابتدائی حالت بہترین اور مضبوط تھی۔ اس نے لمبے لمبے سفر (شریعت کی) دیانت داری سے کئے۔ ان کے زمانے کے تمام چاہنے والے پورے دل سے ان کی طرف مائل تھے اور راہ حق کے متلاشیوں کو ان پر پورا بھروسہ تھا۔ وہ نوخیزوں کی باطنی حالتوں (کشفِ وقائعِ مریدان) کو ظاہر کرنے کی حیرت انگیز طاقت کے مالک تھے۔ انہوں نے علم کی مختلف شاخوں میں خوب مہارت حاصل کی۔ ان کے تمام شاگرد اپنے علم اور طرز عمل کی وجہ سے اس معاشرے کی زینت ہیں جس میں وہ چلتے پھرتے ہیں۔ انشاء اللہ اسے ایک بہترین جانشین ملے گا، جس کے اختیار کو پورا صوفی تسلیم کرے گا، یعنی ابو علی الفضل بن۔ محمد الفرمادی جس نے اپنے آپ کو اپنے شیخ کی خدمت میں پوری طرح وقف کر دیا ہے اور تمام (دنیوی) چیزوں سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس (ترک) کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس شیخ کا روحانی منہ بولا (زبانِ حال) بنا دیا۔
Hazrat Ali Hujwiri (ra) describes an interesting experience pertaining to Qawwali in Kashf-ul-Mahjoob:
One day I came into his presence, when the weather was extremely hot, wearing a traveller’s dress and with my hair in disorder. He said to me: ‘Tell me what you wish at this moment.’ I replied that I wished to hear some music (sama). He immediately sent for a singer (qawwal) and a number of musicians. Being young and enthusiastic and filled with the ardour of a novice, I became deeply excited as the strains of the music fell on my ear.
After a while, when my ecstasy subsided, he asked me how I liked it. I told him that I had enjoyed it very much. He said:
‘A time will come when this music will be no more to you than the croaking of a raven. The influence of music only lasts so long as there is no contemplation, and as soon as contemplation is attained, music has no power. Take care not to accustom yourself to this, lest it grow part of your nature and keep you back from higher things.’
Abu’l Qasim Abdul Karim Bin Hawazin al-Qushayri (ra)
In his time he was a wonder. His rank is high and his position is great, and his spiritual life and manifold virtues are well known to the people of the present age. He is the author of many fine sayings and exquisite works, all of them profoundly theosophical, in every branch of science. Allah rendered his feelings and his tongue secure from anthropomorphism (hashw). I have heard that he said:
‘The Sufi is like the disease called birsam, which begins with delirium and ends in silence; for when the disease sets in, you are dumb.”
Sufism has two sides: ecstasy (wajd) and visions (numud). Visions belong to novices, and the expression of such visions is delirium (hadhayan). Ecstasy belongs to adepts, and the expression of ecstasy, while the ecstasy continues, is impossible. So long as they are only seekers they utter lofty aspirations, which seem delirium even to those who aspire (ahl-i himmal), but when they have attained, they cease, and no more express anything either by word or sign. Similarly, since Moses was a beginner (mubtadi) all his desire was for vision of Allah; he expressed his desire and said, ‘My Lord, show me [Yourself] that I may look at You.’ (7:139). This expression of an unattained desire seemed like delirium. Our Apostle, however, was an adept (muntahi) and firmly established (mutamakkin). When his person arrived at the station of desire, his desire was annihilated and he said, ‘I cannot praise Thee duly.’
اپنے زمانے میں وہ ایک عجوبہ تھا۔ ان کا مقام بلند اور مقام عظیم ہے اور ان کی روحانی زندگی اور کئی گنا فضائل موجودہ دور کے لوگوں کو معلوم ہیں۔ وہ سائنس کی ہر شاخ میں بہت سے عمدہ اقوال اور شاندار کاموں کے مصنف ہیں، یہ سب گہرے نظریاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جذبات اور اس کی زبان کو بشریت (ہاشو) سے محفوظ رکھا۔ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے کہا:
صوفی اس بیماری کی مانند ہے جسے برسام کہتے ہیں، جو پرہیزگاری سے شروع ہوتی ہے اور خاموشی پر ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ جب بیماری شروع ہو جاتی ہے تو آپ گونگے ہوتے ہیں۔
تصوف کے دو رخ ہیں: ایکسٹیسی (وجد) اور نظارہ (نمود)۔ بصارت کا تعلق نوخیزوں سے ہے، اور اس طرح کے نظاروں کا اظہار ڈیلیریم (ہادیان) ہے۔ ایکسٹسی کا تعلق ماہروں سے ہے، اور ایکسٹسی کا اظہار، جب کہ ایکسٹسی جاری ہے، ناممکن ہے۔ جب تک وہ صرف متلاشی ہوتے ہیں وہ بلند و بالا تمنائیں بیان کرتے ہیں، جو خواہش کرنے والوں کو بھی دلیری معلوم ہوتی ہے، لیکن جب وہ حاصل کر لیتے ہیں تو وہ ختم ہو جاتے ہیں، اور نہ ہی لفظ یا اشارے سے کسی چیز کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح چونکہ موسیٰ ایک مبتدی (مبتدی) تھے ان کی تمام خواہشات اللہ کے دیدار کے لیے تھیں۔ اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ میں تیری طرف دیکھوں (7:139)۔ ایک لاحاصل خواہش کا یہ اظہار دلفریب لگتا تھا۔ ہمارے رسول، تاہم، ایک ماہر (منتہی) اور مضبوطی سے قائم (متمکن) تھے۔ جب اس کا شخص خواہش کے مقام پر پہنچا تو اس کی آرزو فنا ہوگئی اور اس نے کہا کہ میں تیری تعریف نہیں کرسکتا۔
ARRIVAL IN LAHORE
One night Hazrat Ali Hujwiri (ra) saw his spiritual guide and teacher Hazrat Sheikh Abu’l Fadl Al-Khuttali in a dream saying to him: “O, my son! we have appointed you as the qutb of Lahore. Be prepared and start forthwith for Lahore.” He replied, “Your Holiness has already appointed Khwaja Hasan Zanjani as the qutb of Lahore. What is the need for this humble being in his presence there? What is the importance, significance, and implication of the order of your holiness?” Thereupon his spiritual guide and teacher said: “O my son! Do not argue with me and leave for Lahore without loss of time.”
Around 431 AH, in the reign of Mahmud Ghaznavi, he left Ghazni for Lahore along with Hazrat Abu Saeed Hujwiri (ra) and Hazrat Ahmad Hammadi Sarkhasi (ra). Hazrat Abu Saeed Hujwiri (ra) was a fellow townsman of Hazrat Ali Hujwiri (ra) and the book Kashf-ul-Mahjoob was written in accordance to his request. Hazrat Ali Hujwiri (ra) says regarding Hazrat Ahmad Hammadi Sarkhasi (ra):
ایک رات حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے روحانی رہنما اور استاد حضرت شیخ ابوالفضل الخطالی کو خواب میں دیکھا کہ آپ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! ہم نے آپ کو لاہور کا قطب مقرر کیا ہے۔ تیار ہو جاؤ اور لاہور کے لیے فوراً شروع ہو جاؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ حضور نے پہلے ہی خواجہ حسن زنجانی کو لاہور کا قطب مقرر کر دیا ہے۔ وہاں اس کی موجودگی میں اس عاجزی کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کے تقدس کے حکم کی اہمیت، اہمیت اور کیا مضمرات ہے؟” اس کے بعد ان کے روحانی رہنما اور استاد نے کہا: اے میرے بیٹے! مجھ سے بحث نہ کرو اور وقت ضائع کیے بغیر لاہور چلے جاؤ۔
431 ہجری کے لگ بھگ محمود غزنوی کے دور میں آپ حضرت ابو سعید ہجویری رضی اللہ عنہ اور حضرت احمد حمادی سرخاسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ غزنی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ حضرت ابو سعید ہجویری رضی اللہ عنہ حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے ساتھی تھے اور کتاب کشف المحجوب ان کی فرمائش پر لکھی گئی۔ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ حضرت احمد حمادی سرخاسی کے بارے میں فرماتے ہیں:
Khwaja Ahmad Hammadi Sarkhasi was the falcon of his time. For some time we remained together and I witnessed many wondrous experiences from him. He was a man of the path of the Shariat.
خواجہ احمد حمادی سرخاسی اپنے وقت کے شہنشاہ تھے۔ کچھ عرصے تک ہم اکٹھے رہے اور میں نے ان سے بہت سے حیرت انگیز تجربات دیکھے۔ وہ شریعت کے راستے پر چلنے والے آدمی تھے۔
When he had reached the outskirts of the city, it had grown dark. He stayed outside the city and entered it in the morning. To his great surprise, he saw a funeral. On his inquiring, he learnt that it was the funeral of Hazrat Sheikh Khwaja Hasan Zanjani (ra), who had passed away the previous night. He led the funeral prayers.
جب وہ شہر کے مضافات میں پہنچا تو اندھیرا چھا چکا تھا۔ وہ شہر سے باہر ٹھہرا اور صبح کو اس میں داخل ہوا۔ حیرت سے اس نے ایک جنازہ دیکھا۔ ان کے استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت شیخ خواجہ حسن زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ ہے جو گزشتہ رات انتقال کر گئے تھے۔ انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔
MIRACLE IN LAHORE
After he had permanently settled in Lahore, he constructed a monastery for himself and also a mosque. When the mosque was under construction, the Ulama of the city raised a storm of opposition to the effect that the mosque was not exactly aligned towards the Qibla. He remained unconcerned about this opposition and objection. When the mosque was complete he invited the Ulama, Sufis, saints, and leading citizens to it and they all offered prayers behind him. After the prayers were over, he addressed all those present, saying: “People have expressed doubt concerning the alignment of the mosque. I request you to close your eyes and meditate and then decide whether it is correct or not.” Thereafter he meditated and the curtains were removed from the eyes of the people. All of them saw that the sacred Ka’ba was before their eyes and that the mosque direction had been correctly aligned.
He spent the rest of his days there guiding, teaching, and inspiring the people and preaching and propagating the doctrine of truth. Thousands of unlettered persons became alims, hoards of people accepted Islam, the misguided began to follow the Path, the insane recovered reason and sanity, the imperfect became perfect (in knowledge) and the sinners became virtuous under the influence of Hazrat Ali Hujwiri (ra).
One of the earlier converts was one Rai Raju, the Naib (Viceroy) of Lahore during the time of Sultan Maudood. On conversion to Islam he was named Sheikh Hindi. His descendants have been since that time the custodians of the mausoleum.
لاہور میں مستقل طور پر سکونت اختیار کرنے کے بعد اس نے اپنے لیے ایک خانقاہ اور مسجد بھی بنوائی۔ جب مسجد زیر تعمیر تھی تو شہر کے علمائے کرام نے مخالفت کا طوفان کھڑا کر دیا کہ مسجد بالکل قبلہ کی طرف نہیں تھی۔ وہ اس مخالفت اور اعتراض سے بے نیاز رہے۔ جب مسجد مکمل ہوئی تو اس نے علمائے کرام، صوفیاء کرام، اولیاء کرام اور معروف شہریوں کو اس میں مدعو کیا اور سب نے اس کے پیچھے نماز ادا کی۔ نماز ختم ہونے کے بعد اس نے تمام حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’لوگوں نے مسجد کی صف بندی کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آنکھیں بند کر کے غور کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ یہ صحیح ہے یا نہیں۔ اس کے بعد اس نے مراقبہ کیا اور لوگوں کی آنکھوں سے پردے ہٹ گئے۔ ان سب نے دیکھا کہ خانہ کعبہ ان کی آنکھوں کے سامنے تھا اور مسجد کی سمت درست تھی۔
اس نے اپنے باقی ایام وہاں لوگوں کی رہنمائی، تعلیم اور ترغیب دینے اور عقیدہ حق کی تبلیغ اور تبلیغ میں گزارے۔ ہزاروں اَن پڑھ عالم بن گئے، لوگوں کے ڈھیروں ڈھیروں نے اسلام قبول کیا، گمراہ راستے پر چلنے لگے، دیوانے عقل و وجدان حاصل کر گئے، نامکمل (علم میں) کامل ہو گئے اور گنہگار حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے زیر اثر نیک ہو گئے۔ )۔
قبل ازیں مذہب تبدیل کرنے والوں میں سے ایک رائے راجو تھا جو سلطان موعود کے دور میں لاہور کا نائب (وائسرائے) تھا۔ اسلام قبول کرنے پر ان کا نام شیخ ہندی رکھا گیا۔ ان کی اولاد اس وقت سے مزار کے متولی ہے۔
PASSING ON
Hazrat Ali Hujwiri (ra) is said to have passed away on the twentieth of the month of Rabi-ul-Awwal 465 AH although the date, month and year are all conjectural. Others have estimated his passing on to have occurred between 481 AH and 500 AH.
His Urs takes place on the twentieth and the twenty-first of Safar every year.
حضرت علی ہجویری رضی اللہ عنہ کی وفات ماہ ربیع الاول 465 ہجری کی بیسویں تاریخ کو ہوئی، حالانکہ تاریخ، مہینہ اور سال سب قیاس ہیں۔ دوسروں نے اندازہ لگایا ہے کہ ان کا انتقال 481 ہجری اور 500 ہجری کے درمیان ہوا ہے۔
ان کا عرس ہر سال صفر کی بیسویں اور اکیسویں تاریخ کو ہوتا ہے۔
RESPECT OF GREAT SUFIS TOWARDS HAZRAT ALI HUJWIRI (RA)
KHWAJA MOINUDDIN CHISHTI (RA)
اسی وقت سے حضرت علی ہجویری (رضی اللہ عنہ) داتا گنج بخش (خزانے دینے والے مالک) کے نام سے مشہور ہوئے۔
QUOTES & TEACHINGS
2. Implore God to deliver you from the wickedness of your soul.
3. Whosoever refrains his soul from lust, verily Paradise shall be his abode.
4. The spiritual path is hard to travel except for those who were created for the purpose.
5. God alone can help a man to do good deeds.
6. All humans action and inaction is the act and creation of God.
7. In our time the science of Sufism is desolate.
8. The people are occupied with following their lusts and have turned their back on the path of spiritualism.
9. Blind conformity had taken the place of spiritual enthusiasm.
10. The universe is an abode of Divine mysteries, which are deposited in created things.
11. Substances, accidents, elements, bodies, forms and properties – all these are veils of Divine mysteries.
12. Man, enamoured of his gross environment, remains sunk is ignorance and apathy, making no attempt to cast off the veil that has fallen upon.
14. Knowledge without action is not knowledge.
15. The highest pinnacle of knowledge is expressed in the fact that without it none can know God.
16. The Divine knowledge penetrates what is hidden and comprehends what is manifest.
17. It behoves the seeker to contemplate God in every act, knowing that God sees him and all that he does.
18. Knowledge of God is the science of gnosis; knowledge from God is the science of the sacred Law; and knowledge with God is the science of the Sufi path.
19. Humanity is the greatest barrier that separates man from Divinity.
20. Poverty has a form and an essence. Its form is destitution and indigence, but its essence is fortune and free choice.
21. The glory of poverty is this, that the poor man’s body is divinely preserved from base and sinful acts, and his heart from evil and contaminating thoughts.
22. The affliction of poverty is a sign of presence, while the delight of riches is a sign of ‘absence’.
23. Dervishhood in all its meanings is a metaphorical poverty, and amidst all its subordinate aspects, there is a transcendent principle.
24. The term ‘Sufi’ has no derivation answering to etymological requirements inasmuch as Sufism is too exalted to have any genus from which it might be derived.
25. The essence of Sufism involves the annihilation of human qualities.
26. Since Sufism consists in turning away from mankind, it is necessarily without form.
27. The Sufi is entirely present: his soul is where his body is, and his body where his soul is, and his soul where his foot is, and his foot where his soul is.
28. Formerly the practice of Sufism was known and the pretence unknown; nowadays the pretence is known and the practice is unknown.
29. It is the inward glow that makes the Sufi, not the religious dress.
30. This world is the abode of trouble, the pavilion of affliction, the den of sorrow, the house of parting, and the cradle of tribulation.
31. The Sufi Sheikhs are physicians of men’s souls.
32. The saints of God attain to a place where place no longer exists, where all degrees and stations disappear and where outward expressions fall off from the underlying realities.
33. Our religion takes the middle course between free will and predestination.
34. Whoever bows his head with humility, like a servant, God will exalt his state in both worlds.
35. Acquiescence is a characteristic of God’s friends, while hypocrisy is a characteristic of His enemies.
36. Divine guidance involves self-mortification without which contemplation is unattainable.
37. Knowledge and action cannot be divorced in any way, just as the light of the sun cannot be separated from the sun itself.
38. Lust is our shackle, and sin is our chain.
39. Any one, who pretends to know God without lowliness and fear, is an ignorant fool, not a gnostic.
40. Human nature is more prone to ignorance than to knowledge.
41. Knowledge is a Divine attribute and action is a human attribute.
42. Ordinary people seek indulgences to keep themselves within the pale of the sacred law, but the elect practice self-mortification to feel the fruit thereof in their hearts.
43. In the mystic path, he who says ‘I have arrived’ has gone astray.
44. A man is united to God when God holds him in honour, and separated from God when God holds him in contempt.
45. The way to God is like the blazing sun.
46. The food of the dervish is ecstacy, his clothing is piety, and his dwelling place is the Unseen.
47. God preserves His saints in all circumstances from the guiles of the Satan.
48. Learning is not learning unless it is practiced, and gnosis is not unless it has reality.
49. Covetousness renders the dervish ignominious in both worlds.
50. Love is an attribute of the beloved; therefore no explanation of its real nature is possible.